Thursday, October 15, 2020

KABOTAR K KHOON SY ILAJ

   کبوتر اور اسکے خون سے  یرقان اور لقوہ کا علاج

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

تحریر : مسزانصاری

جگر کے امراض میں یرقان HEPATITIS ایک نہایت مہلک اور وائرس کے ذریعے ایکدوسرے میں منتقل ہونے والا مرض ہے ۔ یرقان کو پیلیا یا جوائنڈس بھی کہا جاتا ہے۔

medical condition with yellowish pigmentation of the skin or sclerae by bilirubin

اس کی کئی اقسام ہیں

۔ HEPATITIS A

۔ HEPATITIS B

۔ HEPATITIS C

۔ HEPATITIS D

۔ HEPATITIS E

- ۔HEPATITIS A جو عرف عام میں پیلیا کے نام سے مشہور ہے ۔ ہمارے فضلا سے آلودہ پانی اور خوراک اور آس پڑوس میں اس بیماری کی موجودگی اور سیکس اس کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ ہیں۔

- ۔HEPATITIS B اور HEPATITIS C کالا یرقان کہلاتے ہیں جس کے پھیلاو کے ذرائع میں منی اور دوسرے جسمانی مادے جیسا کہ تھوک وغیرہ اور بذریعہ خون جیسا کہ استعمال شدہ انجیکشن اور سرنجز کا دوبارہ استعمال، ہیلتھ کے شعبے سے متعلق لوگوں میں سوئی کا چبھ جانا اور ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں مبتلا حاملہ خاتون کے ہاں پیدائش شامل ہیں۔

۔ HEPATITIS D عمومًا بذریعہ خون پھیلتا ہے ۔

۔ HEPATITIS E انسانی فضلا سے آلودہ پانی اور خوراک کے استعمال سے پھیلتا ہے

دنیا میں یہ مرض ہر خطے میں پایا جاتا ہے ، اور چونکہ ہر جگہ کے اپنے اپنے طریقہ علاج ہوتے ہیں اس لیے لوگوں نے یرقان کے بھی کچھ علاج دریافت کر لیے ہیں ۔ ان طریقہ علاج میں درج ذیل طریقہ بھی عمومًا بہت مقبول ہے ۔

کالے یرقان کے علاج کے طریقہ میں نر جنگلی کبوتر کے پیخانے کی جگہ کو مریض کی ناف پر اس وقت تک رکھا جاتا رہتا ہے جب تک کبوتر مرتا رہتا ہے ، یوں مریض میں کالے یرقان کے وائرس کی ناف کے ذریعے کبوتر میں منتقلی کی جاتی ہے ۔ یعنی اس طریقے میں ایک مریض پر چالیس پچاس کبوتر تڑپ تڑپ کر مرتے ہیں ۔ جب کبوتر مرنا بند ہو جاتا ہے مریض کا اس مرض سے مکمل شفاء یابی تصور کی جاتی ہے ۔

یہ فعل شرعًا حرام اور ناجائز ہی ہے کیونکہ اس کام میں معصوم حيوان كو اذيت اور عذاب دينا ہے، جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے.

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ايك عورت كو بلى كى بنا پر عذاب كا سامنا كرنا پڑا،اس نے بلى كو باندھ ديا حتى كہ وہ مر گئى تو اس كى بنا پر وہ عورت آگ ميں داخل ہوگئى، اس عورت نے جب اسے باندھ ركھا تھا تونہ اسے كھانا پانى ديا اور نہ ہى اسے چھوڑا كہ وہ زمين كے كيڑے وغيرہ كھا كر گزارا كرتى"

صحيح بخارى / رقم الحديث : ٢٢٣٦

صحيح مسلم / رقم الحديث : ٢٢۴٢

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

حديث سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ وہ عورت اس معصيت كى بنا پر آگ ميں داخل ہوئى.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ وہ ايك دن يحيى بن سعيد كے پاس گئے تو بنو يحيى كے غلاموں ميں سے ايك نے مرغى كو باندھ كر پھينكا ہوا تھا، تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما اس مرغى كے پاس گئے اور اسے كھول ديا، پھر اس مرغى اور غلام كو ساتھ لے كر آئے اور كہنے لگے:

اپنے اس غلام كو ڈانٹو، اس نے اس پرندے كو قتل كرنے كے ليے باندھ ركھا تھا، كيونكہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا كہ آپ نے جانور وغيرہ كو باندھ كر قتل كرنے سے منع فرمايا"

صحيح بخارى / رقم الحديث : ۵١٩۵

صحيح مسلم / رقم الحديث : ١٩۵٨

ایک اور روایت میں ہے کہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس چيز ميں بھى روح ہو اسے ھدف مت بناؤ"

صحيح مسلم / رقم الحديث : ١٩۵٧

تاہم اگر ہلاکت کا اندیشہ بڑھ جائے اور طبی علاج سے عاجز آجائے تو بہ وقتِ مجبوری اس علاج میں ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں ہوگا ۔ لیکن ہم سب ہی اس بات سے واقف ہیں کہ یرقان لا علاج مرض نہیں ، سائنس کے اس عروجِ ترقی کے دور میں یرقان کا علاج اب مشکل نہیں رہا ، لہٰذا بظاہر (الضرورات تبيح المحظورات) کے قاعدے کی یہاں ضرورت نظر نہیں آتی ۔

اسی طرح فالج یا لقوہ کی بیماری میں بھی کبوتر کا بہتا ہوا خون بطور علاج لگایا جاتا ہے جو شرعًا صحیح نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امراض سے شفاء کے لیے حلال اشیاء کے استعمال کی ہی تعلیم دی ہے لیکن حرام اشیاء میں امراض کی شفا نہیں رکھی، اور نا ہی حرام اشیاء کو بطور دوا استعمال کرنا جائز ہے ۔ کبوتر حلال جانور ہے اس کا گوشت اپنی جگہ کھانا حلال ہے مگر اس کا بہتا ہوا خون دم مسفوح کے حکم میں ہے جو حرام ہے

فرمان الہی ہے :

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ(المائدة: 3)

ترجمہ:

اور تمہارے اوپر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام قرار دیا گیا ہے،

اور حلال نہ ہونے کی وجہ سے اس سے علاج کرنا جائز نہیں ہے خواہ علاج کا طریقہ کھانے یا پینے یا ملنے (لگانے) جیسا ہو۔

اسکی وضاحت دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے :

قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ(الانعام :ا45)

ترجمہ: کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے ۔

ان آیات سے ثابت ہوا کہ انسان کے لئے کسی بھی قسم کا بہنے والا خون حلال نہیں ہے اس لئے کبوتر کے خون سے فالج کی بیماری کا علاج کرنا جائز نہیں ہے

ALQURAN O HADITHSWITH MRS. ANSARI

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔

ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

 

 

 

 

 

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search